لگتا ہے رات بلی بچا ہوا سالن الماری سے نکال کر کھا گئی۔____ صبح جب منال چھپرے میں بیٹھی چائے پی رہی تھی تو الماری رات والے برتن معاذ نکال کر لایا اور میلے برتنوں کی جگہ پر رکھتے ہوئے بولا۔

منال تپ گئی لیکن بولی کچھ نہیں۔
آج بھی چائے نوری نے آکر میرے جاگنے سے پہلے بنائی۔ تم تو گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہیں تھیں۔___ معاذ نے آگ کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا اور ہاتھ سینکنے لگا۔
( نوکر ہوں اس جن کی جیسے۔۔۔ چائے بناؤ۔۔۔ کھانا بناؤ۔۔۔ چوزے سنبھالو۔۔۔ہنہہہہہہ) منال نے دل میں کہا۔وہ چائے پی رہی تھی۔پيالی میں اس سے چائے پی نہیں جارہی تھی۔ ( میرا جہیز کہاں ہے۔؟؟؟ تایا اور چچا جان کو دینا ہی ہوگا۔۔۔ دو جوڑوں میں مجھے رُخصت کر دیا۔۔۔ آج ہی فون کر کی اپنے جہیز کا مطالبہ کروں گی۔۔۔ ایک کپ بھی نہیں میرے پاس کے چائے ہی پی سکوں۔) منال سوچے جارہی تھی۔
معاذ نے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار تھا۔ وہ لال رنگ کا شال اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے بالوں کہ جوڑا بنایا ہوا تھا اور آگے کی لٹیں باہر جھول رہیں تھیں جوڑے سے نکل کر۔
معاذ اس کی جھکی ہوئی پلکوں کو دیکھ رہا تھا۔ایک پل کو اُسکا دل الگ انداز میں دھڑکا۔۔۔ پھر سمبھل گیا۔
میں کھیتوں کی طرف جارہا ہوں۔یہ کہنے کا فائدہ تو نہیں کہ چوزوں کا خیال رکھنا۔۔۔ نوری اور اس کا شوہر دلشاد تھے تو سارا گھر سنبھالتے تھے۔۔۔ میں نے سوچا گھر والی آئیگی تو اُن کی ضرورت نہیں ہوگی مزید ۔۔۔ گھر والی اپنا گھر خود سنبھالے گی۔۔۔ مگر گھر والی کے تو واٹس ایپ کے اسٹیٹس ہی ختم نہیں ہورہے۔____ معاذ نے کہا۔
مجھے کام کرنے کی عادت نہیں ہے۔۔۔ وہاں تائی اور چچی کھانا بناتی تھیں۔ہم لڑکیاں بس پڑھائی پر دیہان دیتیں تھیں۔_____ منال نے جھکی ہوئی پلکوں کے ساتھ جواب دیا۔
بس لڑکیوں کو ڈپٹی کمشنر لگنا تھا سسرال میں جو کام نہیں سکھایا۔۔۔____ معاذ نے کہا۔
جب کام کے لیے ملازم ہیں تو آپ مجھ سے کیوں کام کروانا چاہتے ہیں؟ آپ افورڈ کر سکتے ہیں۔___ منال نے کہا۔
جب بیوی نہیں تھی۔۔ کوئی بہن یاں بھابھی بھی نہیں تھی تو نوری اور دلشاد کو ملازم رکھا۔وہ میرے کھیتوں میں کام بھی کرتے ہیں۔گھر میں کوئی خاتون نہیں تھیں تو اُن سے کام کا کہا تھا۔۔۔ ____ معاذ نے سختی سے جواب دیا۔
منال نے اس بار اسے دیکھا۔پھر نظریں پھیر لیں۔ ( کیا بیوی صرف کام کے لیے ہے؟ دو بول محبت کے نہیں بولے جاتے موصوف سے۔۔۔ تعریف نہیں کرتے بیوی کی ۔۔۔ بس کام۔) منال دل میں کہتی جارہی تھی۔
میں جارہا ہوں۔ دوپہر کے کھانے میں پراٹھا بنانا لینا اور انڈا بھی۔ لسی نوری لیکے آئیگی۔ پراٹھا بنانا آتا ہے نا؟______ معاذ نے کہا۔
منال نے غصے سے اسے گھورا لیکن بولی کچھ نہیں۔پھر اس کے جانے کے بعد اس کی نقل اتارنے لگی۔۔۔ہنہہہہہہہہ پراٹھا بنا لینا۔ معاذ کے جانے کے بعد اس نے کوشش کی آٹا گوندھنے کی لیکن آٹا عجیب ہی ہوتا جارہا تھا اتنے میں نوری آگئی۔
رہنے دیں ۔۔۔ آپ سے نہیں ہوگا۔ میں کر دیتی ہوں۔___ نوری نے کہا۔
لیکن وہ معاذ۔___ منال نے پریشانی سے کہا۔
صاحب ابھی کھیتوں پر گئے ہیں۔وہاں ڈیرے پر سب جمع ہوتے ہیں گاؤں والے۔۔ سمجھو محفل لگی ہوتی ہے۔۔۔ باتیں ۔۔ چائے وغیرہ۔۔۔ اب وہ دوپہر کو ہے آئینگے۔اُن کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔_____ نوری نے کہا اور آٹا اس سے لیکے گوندھنے لگی۔
میں روز کھانا بنا دیا کروں گی۔۔۔ معاذ صاحب کو پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ بس وہ کیا ہے نہ ہمیں چینی چائے کی پتی۔۔۔ نمک یاں کبھی آٹے کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ آپ مجھے پیسے نہ دو بس راشن دے دیا کریں۔۔۔ کبھی تھوڑی سے چینی۔ کبھی تیل ۔۔۔ کبھی آلو ، پیاز ، ٹماٹر۔۔۔ میری اجرت یہی ہے۔ مجھے ضرورت بھی انہی چیزوں کی ہے۔____ نوری کہتی جارہی تھی۔
( واہ یہ تو اچھا ہے۔ پیسے تو میرے پاس ہیں نہیں۔۔۔ اور کو جن مجھے دیگا نہیں پیسے ۔۔۔ اور میں مانگوں گی نہیں اس سے۔ یہ کام آسان ہے۔ کام بھی ہو جائیگا اور معاذ کو لگے گا کہ سارا کام میں کرتی ہوں۔ یہ سارا سامان تو گھر میں بہت پڑا ہے۔) منال نے دل میں سوچا۔
نوری نے پراٹھے بنائے انڈا منال نے خود بنایا۔ مسئلہ کھانا پکانا نہیں تھا۔ مسئلہ آگ کا تھا جو منال سے نہیں جل رہی تھی۔جل بھی جاتی تو پھر بھج جاتی۔نوری نے اسے آگ جلانے کا طریقہ بتایا۔
آپ سلنڈر منگوا لیں۔ اس میں آپ کو آسانی ہوگی۔___ نوری نے صلاح دی۔
معاذ کے آنے سے پہلے نوری اپنے گھر چلی گئی۔منال نے کلو جتنا آٹا اسے دیا آج کے دن کے لیے۔
معاذ کو دیکھتے ہی منال نے جھاڑو اٹھایا اور دکھایا کے وہ کام کرنے میں مصروف ہے۔ صفائی نوری نے کر دی تھی۔کچرا تھا بھی نہیں بس درخت سے گرنے والے چند پتے تھے اور اندر دھول مٹی۔
معاذ اندر داخل ہوا تو دیکھا منال کے ہاتھ میں جھاڑو ہے۔اور وہ صاف زمین پر خالی جھاڑو پھیرتی جارہی تھی۔معاذ نے ابرو اچکائے اور کمرے میں چلا گیا۔منال کھانا کمرے میں لے آئی۔
تم نے بنایا ہے؟______ معاذ نے پوچھا۔
منال نے بچوں کی طرح سر اثبات میں ہلایا۔
پراٹھا دیکھ کر معاذ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔( بیوقوف لڑکی ۔۔۔ اتنے سالوں سے نوری کے ہاتھ کے پراٹھے کھا رہا ہوں۔ پہلی نظر اور پہلے نوالے میں پہچان جاتا ہوں کہ نوری نے بنائے ہیں۔)
معاذ نے دل میں کہا اور کھانے لگا۔
منال گلابی رنگ کا سوٹ لیکے نہانے چلی گئی۔
معاذ کھانا کھانے کے بعد پھولوں کو پانی دینے لگا۔
منال نہا کر نکلی اور میک اپ باکس کھولا ہلکا سا اچھا سا میک اپ کیا۔ بھیگے بال شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ نیلے رنگ کا نیا شال نکال کر وہ باہر آئی۔اس کے قریب آکر انجان بن کر پھولوں کو دیکھنے لگی۔معاذ کی نظر اس پر گئی۔وہ چور نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔
معاذ پھر باہر چلا گیا اور شام کو ہی واپس آیا۔اس نے بغل میں ایک مرغا دبایا ہوا تھا۔حکم صادر ہوا کہ مرغے کی آؤبھگت اب اس کی ذمہ داری ہے۔
توبہ ہے اب یہ منہوس مرغا بھی سنبھالنا پڑے گا۔_____ وہ روہانسی ہو گئی۔
مرغی تو چوزوں سمیت ڈیرے میں شفٹ کر لی گئی تھی۔اب منال کو اس مرغے کی نخرے اٹھانے تھے۔
رات کو سردی بڑھنا شروع ہو گئی تو منال چھپرے میں آگئی اور آگ جلانے لگی آگ جلانا اسے نوری نے سکھا دیا تھا۔لیکن پھر بھی اس سے آگ نہیں جل رہی تھی بار بار دعا ہو رہا تھا اس کو غصہ آگیا اس نے لکڑیاں پھینک دیں اور غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی تو سامنے سے آتے ہوئے معاذ سے ٹکڑا گئی۔
اُففف دیکھ کر نہیں چل سکتیں؟____معاذ اسے کندھوں سے پکڑ کر بولا منال اس غیر متوقع ٹکر کی وجہ سے ڈر گئی تھی اور بس اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی وہ اسے ہلکا سا جھٹکا دے کر بولا۔
چلو اندر رات بہت ہوگئی ہے۔____ معاذ اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا منال کھینچتی چلی آئی کمرے میں آ کر غور کیا تو اب تک منال کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا۔
پاگل لڑکی میرا ہاتھ کیوں پکڑا ہوا ہے.؟___ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر بولا۔
میں نے کب؟؟؟ آپ نے خود ہی میرا ہاتھ پکڑا تھا۔___ منال چونک کر بولی۔
وہ بڑی زبان چلنے لگی ہے میڈم کی۔___ وہ بیڈ پر لیٹ کر بولا۔
منال چارپائی پر لیٹ گئی اور کمبل اپنے اوپر تان دی اس کا دل اب تک زور سے دھڑک رہا تھا کتنا اچھا لگ رہا تھا اس کا یوں ہاتھ پکڑ کر چلنا۔پہلی بار معاذ نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ پہلی بار منال نے اس کا لمس محسوس کیا تھا۔منال اب کمبل کے نیچے اپنے ہاتھ کو پکڑے مسکرا رہی تھی۔
ایسا ہی کچھ حال معاذ کا بھی تھا۔اس نے بھی یہ لمس پہلی بار محسوس کیا تھا۔معاذ نے اٹھ کر بتی بھجھا دی۔اب وہ کروٹ بدل رہا تھا بار بار۔
_______________
دن ہی گزرتے چلے گئے۔بنا کر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر معاذ نے یہ شادی کیوں کی تھی۔جب اسے منال سے کوئی سرو کار نہیں تھا تو۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ۔۔۔ وہ مجھ سے شادی کیلئے راضی نہیں تھا اور چچا نے زبردستی کی۔___ اس نے سوچا۔
کام کا اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا وہ سدا کی کام چور نوری سے جلدی جلدی سارے کام کروا لیا کرتی تھی اور سارا کریڈٹ خود لیتی تھی معاذ کے سامنے۔
اڑوس پڑوس کی خواتین کے ساتھ اب اس کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔ان میں سے کوئی نہ کوئی روزانہ اس کے گھر آ جاتی اور کافی دیر تک باتیں کرتی۔کبھی منال کو ان کا آنا اچھا لگتا اور کبھی وہ تنگ ہوتی۔
ہوٹل اس لیے ہوتی تھی کہ خواتین اس سے معاذ کے متعلق سوالات کرتی تھیں۔جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
اس کے گھر میں کافی درخت تھے اور ان میں چڑیاں وہ بلبل وہ فاقہ اور کچھ پرندوں کی تو وہ نام بھی نہیں جانتی تھی رہتے تھے۔
نماز صبح صبح فرش پر گندم کے دانے ڈالتا تھا اور یہ سارے پرندے آ کر چومنا شروع کر دیتے۔وہ معاذ کی مرغیوں ۔۔۔ چوزوں ۔۔۔ یہاں تک کہ کوؤں سے بھی محبت دیکھ کر نہ صرف حیران ہوں دیبل کے اندر ہی اندر جلتی کُڑھتی رہتی تھی۔
بیوی سے تو آج تک دو بول محبت کے نہیں بولے موصوف نے۔۔۔ سارا پیار ان چڑیا کوؤں بلبل پر نچھاور ہو رہا ہے۔۔۔۔ ان مرغی اور چوزے پر مہربانی کی جارہی ہے مگر پانچ فٹ کی یہ لڑکی نظر ہی نہیں آ رہی ہے اس شخص کو۔۔۔۔
وہ روز اسے دھمکی دیتا تھا کہ سویرے آٹھ کر چائے بنانے لیکن یہ کمبخت نیند نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔وہ روز خود چائے بناتا ۔۔۔ منال کو روز صبح بنی بنائی چائے مل جاتی ۔۔۔ ناشتہ وہ دونوں ہی نہیں کرتے تھے۔
ایک یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی۔___ وہ چائے پیتے پیتے مسکرا دیتی۔۔۔ معاذ اس کو یوں مسکراتا دیکھتا تو اسے کبھی کبھار منال کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگتا۔
آج حلیمہ خاتون اپنی بہوؤں اور بیٹیوں سمیت آئیں۔منال دیکھ کر حیران ہوئی کے یہ سب کون ہیں۔۔۔ حلیمہ خاتون تو گھر میں اپنے ایک بیٹے علی اور شوہر سمیت رہتی ہیں۔پھر یہ کون ہیں؟ ___ منال نے سوچا۔
صاحبہ بھابھی اور ناز بجی بہت اچھی تھیں اُن سے بہت کچھ جاننے کو ملا۔ وہ سب پڑھائی لکھی ماڈرن تھیں۔حلیمہ کے بڑے بیٹے آشر کی پوسٹنگ اسلام آباد میں تھی اور صاحبہ بھابھی ان کی بیوی تھیں۔۔۔ اور ناز بجی کے شوہر کراچی میں ڈاکٹر تھے۔
ہم سردیوں کی چھٹیوں میں گاؤں آتے ہیں۔ورنہ موسمِ گرما میں تو یہاں رہنے جیسا نہیں ہوتا۔____ ناز باجی نے کہا۔
منال تم بھی گرمیوں میں کراچی جاؤ گی نا؟ ___ صاحبہ بھابھی نارنجی چھیلتے ہوئے بولیں۔
نہیں میں کراچی کیوں جاؤں گی۔۔۔ اب یہی میرا گھر ہے۔۔۔ گرمی ہو یاں سردی۔۔۔ میں اور معاذ ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتے۔۔۔ جہاں معاذ ہونگے وہاں میں۔۔۔ ____ منال نے لمبی چھوڑی۔
مشاء اللہ لگتا ہے بہت محبت ہے دونوں میں ۔۔۔ ___ ناز بجی بولیں۔
ہاں اور نہیں تو کیا۔۔۔ انہوں نے تو سال کا انتظار بھی نہیں کیا رخصتی کے لیے اور مجھے لے آئے دیکھیں۔۔۔___ منال نے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
پیچھے سے آتے معاذ نے منال کی باتیں سن لیں۔۔۔
جاری ہے...