گھر میں ہر طرف گہما گہمی تھی۔آج اس کا نکاح تھا۔بظاہر تو وہ خوش رہنے کی اداکاری بھرپور طریقے سے کر رہی تھی اپنی ساری
کزنز کو اور اپنی چچیوں کو جلانے کے لیے۔لیکن اندر ہی اندر خود جل بھی رہی تھی اور کڑھ بھی رہی تھی۔
محترمہ نے لمبی پلاننگ کی ہوئی تھی تائی جان کے اکلوتے بیٹے کو پھنسا کر اس سے شادی کرنے کی۔اس نے سوچا تھا کہ اپنی خوبصورتی کے بل بوتے پر وہ حیدر کو اپنے جال میں پھنسا لی گی۔لیکن اسکی چال الٹی پڑ گئی۔_____ سمیہ نے اقراء کے کان میں سرگوشی کی۔منال ان دونوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھ رہی تھی کہ وہ یقینا اسی کے بارے میں باتیں کر رہی ہیں اور اس کا مذاق اڑا رہی ہیں۔
اور خوش رہنے کی اداکاری تو ایسے کر رہی ہے جیسے ہمیں اس کے اندر کا حال پتہ ہی نہیں ہے۔اس کو کہتے ہیں رسی جل گئی لیکن بل نہیں گیا۔____ صدف نے بھی سرگوشی میں حصہ لیا۔
کہاں وہ امریکن ریٹرن حیدر اور کہا یہ گاؤں کا لڑکا معاذ۔____ اقراء نے کہہ کر اپنی ہنسی دبائی۔
منال دلہن بنے بیٹھی تھی۔اور وہ گھونگھٹ کی اوٹ سے ان سب کا تماشا ملاحظہ فرما رہی تھی۔نکاح خواں آنے ہی والا تھا۔
وہ بن ماں باپ کی بچی تھی۔اس کے تین چچا تھے۔ان سب نے اسے پالا پڑھایا لکھایا۔لیکن اندر ہی اندر اس سے حسد بھی کرتے تھے۔وہ خود بھی کوئی ابلا ناری نہیں تھی۔وہ بھی بہت تیز تھی۔بڑی تائی کا بیٹا ہے جب امریکہ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے آیا۔تو تمام لڑکیوں کی نظر اس پر تھی۔ساری کزن چاہتی تھی کہ حیدر انہیں پسند کر لے۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ منال سب کزنز میں سے سب سے زیادہ حسین تھی۔اسی لئے ساری کزنز کو یہی پریشانی تھی کہ حیدر آتے ہیں منال پر فدا ہو جائے گا۔
منال کو بھی یقین تھا اور وہ ہر طرح سے پراعتمادی کے حیدر اسے پسند کرلے گا۔اسے اپنی خوبصورتی پر ناز بھی تھا۔اور اسی خوبصورتی کی وجہ سے اس کی سب کزنز اور اس کی چچیاں اس سے جلتی تھیں۔لیکن ظاہر ایسا کرتی تھی کہ ان سب کو منال سے بے حد محبت ہے۔منال بھی ان کے دل کا حال جانتی تھی۔
ایک دن منال اپنی سہیلی نور سے باتیں کر رہی تھی اور اسے بتا رہی تھی کہ وہ حیدر کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا لے گی اور اسے شادی کرے گی۔ اور اس گھر کی مالکن بن کر سب کا خون جلائے گی۔___ تو شفاء نے اس کی ساری باتیں سن لیں اور اس کو دفاع کرنے کے لیے اُسکی چچیوں نے گاؤں میں رہنے والے دور کے ایک رشتے دار لڑکے کو بولا کر اس سے نکاح پڑھوانے کی تیاری کی۔
جس لڑکے کو وہ گاؤں کا سادہ لوح انسان سمجھ کر منال کا نکاح کروا رہے تھے اصل میں وہ اتنا بھی سادہ نہیں تھا۔وہ ان سب سے زیادہ جی دار تھا۔
منال جان گئی تھی کہ گھر والوں نے حیدر کے معاملے میں اس کی پلاننگ کو جانتے ہوئے یہ رشتہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے وہ چپ چاپ راضی ہوگئی مرتا کیا نہ کرتا۔
کیوں کہ بسمہ اس کی ساری باتیں سن لی تھیں اس وجہ سے اسے سب گھر والوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا اور عافیت اسی میں جانی کے چپ چاپ اس نکاح کے لئے ہاں کر دے۔
اس کو بتایا تو یہ گیا تھا کہ ایک سال بعد اس کی رخصتی ہو گی ۔۔۔ دھوم دھام سے۔۔۔ لیکن چونکہ دولہا بڑا جی دار تھا۔نکاح کے فورا بعد اس کی فرمائش آگئی کہ وہ ابھی اسی وقت دلہن کو رخصت کرکے اپنے گاؤں لے جانا چاہتا ہے۔
اگر دولہا یہ فرمائش نکاح سے پہلے کردیتا تو یقیناً یہ نکاح ہی نہ ہوتا۔ دولہے کی اس فرمائش پر لڑکیوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔گھر کے بزرگ سوچ میں پڑ گئے بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ دلہن نے دولہے کے ساتھ آج ہی رخصت کر دیتے ہیں۔
" امی آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔ وہ سب سے خوبصورت ہے۔۔۔ آپ نے اتنی اچھی لڑکی سے مجھے محروم کر دیا۔" حیدر نے منال کو دلہن کے روپ میں دیکھا تو ماں سے شکوہ کیا۔اسے رہ رہ کے غصّہ آرہا تھا۔۔۔ اس نے چھے سال پہلے منال کو دیکھا تھا اور بچپن سے دیکھتا آرہا تھا جب منال چودہ سال کی تھی۔اب وہ بیس اکیس سال کی کوئی پری لگ رہی تھی۔۔۔ حیدر اسے دیکھتا ۔۔۔ پھر باقی کزنز کو۔۔۔ اس کا دل برا ہونے لگ جاتا۔
" امی خاندان میں ایک یہی لڑکی میرے لائق تھی۔ اب میں شادی کروں گا تو خاندان سے باہر کروں گا میں کہے دیتا ہوں آج ہی آپ سے۔"__ حیدر نے اپنا حتمی فیصلہ اپنی ماں انیسہ بیگم کو سنایا۔
اچانک رخصتی کی بات سن کر منال کے سر پر تو جیسے آسمان گرا تھا لیکن اس نے بمشکل خود کو سنبھالا۔
اصل میں میں ہوں ہی اتنی پیاری کہ میرے شوہر سے سال کا انتظار نہیں ہو پا رہا شاید وہ جلدی مجھے اپنے گھر کی زینت بنانا چاہتے ہیں۔____ منال نے غرور سے کہا۔ اور دل میں اپنے تازہ ترین شوہر کو حسین القابات سے نوازا۔
تم تو پیاری ہو اب تمہارا دولہا اندر آئے تو ہم دیکھیں کہ تمہارا دولہا کیسا ہے؟۔____ اقراء نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
لیکن جیسے ہی معاذ اندر آیا سب لڑکیوں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔ حیدر کیا تھا اس کے آگے۔۔۔ ٹام کروز جیسا معاذ آج دولہا بن کر واقعی ہیرو لگ رہا تھا۔
یہ تو کچھ زیادہ ہی ہینڈسم ہے۔____ اقراء نے شفاء کے کان میں کہا۔
ساری لڑکیاں تیار تھیں۔۔۔ ایسے جیسے نکاح کا فنکشن نہ ہو کوئی ولیمے کا فنکشن ہو۔
" اچھا ہے لے جائے آج ہی اس آفت کی پڑیا کو۔" صائمہ چاچی نے کہا۔
خیر جیسے تیسے اسی رات منال کو معاذ کے ساتھ رخصت کردیا گیا اب شہر سے گاؤں کا رستہ تین گھنٹے کا تھا۔
تین گھنٹے بھاری بھرکم کپڑوں اور جھکے ہوئے سر کے ساتھ بیٹھ کر منال تو ہلکان ہو گئی تھی اور ایک نظر اٹھا کر اس نے پاس بیٹھے معاذ کو بھی چور نظروں سے دیکھ لیا تھا اور دل میں اطمینان ہوا کہ شکل تو اچھی ہے جاھل گوار بھی نہیں لگ رہا ہے۔لیکن روب دار ضرور لگ رہا تھا۔
تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے بالآخر گاؤں آہی گیا منال کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے۔اسے رہ رہ کر معاذ پر غصّہ بھی آرہا تھا۔
منال نے سوچا تھا کہ ایک سال بعد رخصتی ہے اس عرصے میں اس کا شوہر شہر میں گھر لے گا اور اسے گاؤں نہیں جانا پڑے گا لیکن اب وہ سخت غصے میں تھی لیکن اظہار نہیں کر پا رہی تھی اور جس طرح سے گھر والوں نے اسے راتوں رات رخصت کیا تھا۔۔۔ اس نے قسم کھالی تھی کہ واپس اس گھر میں نہیں جائے گی اور سب گھر والوں کو یہی دکھائے گی کہ وہ گاؤں میں بہت زیادہ خوش ہے۔
________________
رات کے نو بج رہے تھے۔معاذ تو گاڑی سے اتر کر ہی کہیں غائب ہو گیا تھا۔ ایک عورت اس کے ساتھ تھی گاؤں کی جو کہ نکاح میں بھی شریک تھیں۔وہ معاذ کی خالہ حلیمہ خاتون تھیں۔
حلیمہ خاتون منال کو اس کے کمرے میں لے کر گئیں۔
بیٹا تم تھکی ہوئی ہوں اب آرام کرو معاذ آتا ہی ہو گا۔ میں بھی تھک گئی ہوں۔ اپنے گھر جا رہی ہوں مجھے بہت نیند آ رہی ہے میرا گھر یہاں پڑوس میں ہی ہے۔کسی چیز کی ضرورت ہو تو آواز دے دینا۔ویسے گاؤں والے سب سویرے ہی سو جاتے ہیں۔_____ حلیمہ خاتون نے کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔
کچھ دیر تو وہیں بیٹھی رہی پھر خیال آیا تو کمرے سے باہر نکل آئیں اور گھر کا جائزہ لینے لگی۔اس نے سوچا تھا کہ گاؤں کا کوئی بوسیدہ گھر ہوگا لیکن یہ اچھا خاصہ شہر نما گھر تھا جھوٹا تھا لیکن خوبصورت تھا۔
بجلی نہیں تھی لیکن سولر لائیٹ کی وجہ سے پورا گھر روشن تھا۔منال نے نوٹ کیا کہ گھر میں سولر سسٹم اچھے طریقے سے لگا ہوا ہے سولر کے پلیٹ بھی نظر آرہی تھے۔۔۔ یو پی ایس بھی اور بیٹری بھی۔منال کو تھوڑی تسلی ہوئی۔وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ پیچھے سے کسی کی گمبھیر آواز سنائی دی۔
دلہن ایک جگہ پر بیٹھی ہوئی اور شرماتی ہوئی اچھی لگتی ہے۔تم عجیب دلہن وہ جو پہلی رات ہی سیر سپاٹوں میں نکل آئیں۔____ معاذ کی آواز پر وہ جیسے اچھل پڑی۔
نہیں ۔۔۔ میں ۔۔۔ تو ۔۔۔ وہ گھر دیکھ رہی تھی۔____ منال ہڑبڑا گئی۔
یہ کام صبح کیا جا سکتا ہے۔ گھر کہیں بھاگا نہیں جارہا۔گاؤں والوں نے دیکھ لیا تو میرا مذاق بنائیں گے۔____ وہ کافی سخت لہجے میں بولا۔
منال فٹ سے اندر آگئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسے بہت برا لگا معاذ کا یوں بات کرنا۔تھوڑی دیر بعد معاذ اندر آیا۔منال کا دل اب کسی بھی لگام گھوڑے کی طرح دوڑنے لگا۔اسے لگا معاذ اس کے پاس آئے گا منہ دکھائی دیگا۔۔۔ اس کے حسن کی تعریف کریگا۔۔۔ میٹھی میٹھی باتیں کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔وہ سیدھا آکر بیڈ کے دوسرے کنارے ڈھے گیا۔پھر سر اٹھا کر منال کو دیکھا۔
یہ چارپائی دیکھ رہی ہوں نا۔۔۔ میں نے تمہارے سونے کے لئے ہی رکھی ہے۔۔۔ تم اس چارپائی پر سو جاؤ۔۔۔ مجھے اپنے بیڈ میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں ہوتی۔۔۔ میری نیند خراب ہوتی ہے جاؤ شاباش سو جاؤ۔_____ معاذ نے اپنے روب دار لہجے میں کہا تو منال حیران ہوگئی۔۔۔( آخر کیا مسلہ ہے اس انسان کے ساتھ؟ کیا اسی لیے راتوں رات رخصت کر کے لیا تھا مجھے) منال کو اپنی سخت تذلیل محسوس ہوئی۔
اسے لگا تھا کہ معاذ اس کے حسن پر فدا ہو جائے گا۔ اس کی تعریفیں کریگا۔ منہ دکھائی میں سونے کی کوئی چین انگوٹھی دیگا لیکن اس کا رویہ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔
( کھڑوس انسان۔۔۔ سمجھتا کیا ہے خود کو؟ تھوڑی سی شکل کیا اچھی مل گئی۔۔ خود کو واقعی ہیرو سمجھنے لگ گیا ہے۔احسان ماننا چاہیے اسے میرا کے مجھ جیسے پڑھائی لکھی حسین لڑکی نے اس سے شادی کے لیے حامی بھری ہے۔) منال دل ہی دل میں تپ رہی تھی۔
وہ چارپائی کی طرف گئی اور وہاں پر لیٹ گئی معاذ نے اٹھ کر بتی بجا دی۔وہ اب اندھیرے میں ہی اپنا زیور اُتار رہی تھی اور چارپائی کے کونے میں رکھ دیا۔نہ میک اپ صاف کیا اور نہ لباس تبدیل کیا۔۔۔ نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
_________________
صبح اسے کسی کی گرم گرم لمس کا احساس ہوا اس نے غنودگی میں پوچھا کہ کون ہے؟
میں ہوں تمہارا شوہر ۔۔۔ اٹھو اور مجھے چائے بنا کر دو پورا گاؤں جاگ گیا ہے تم ابھی تک سو رہی ہو۔____ معاذ نے کہا تو وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھی۔معاذ اس کی شکل دیکھ کر ہنسنے لگا۔
ہنس کیوں رہے ہیں؟____ اس نے معصومیت سے پوچھا۔
تمہاری شکل دیکھ کر ہنس رہا ہوں کارٹون لگ رہی ہوں بالکل۔۔۔ معاذ نے کہا اور باہر نکل گیا۔
وہ اٹھی اور آئینے کے سامنے آئے دیکھا تو میک اپ کا حشر نشر ہو چکا ہے۔کاجل اور آئی لائنر پھیل گئے ہیں۔ لپ اسٹک گالوں تک پھیلی ہوئی تھی۔وہ واقعی کارٹون لگ رہی تھی۔
اسے کمرے کے اندر ایک دروازہ نظر آیا۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ گاؤں میں واش روم بھی کمرے سے اٹیچ ہوگا۔اس نے دروازہ کھولا تو اچھا سا واش روم تھا بالکل شہر کے جیسا۔اس نے شکر کیا۔ بیگ سے ایک ہلکا سا سوٹ نکلا اور واشروم میں گھس گئی۔
فریش ہو کر باہر آئی تو دیکھا کہ ایک چھپرا سا بنا ہوا ہے جہاں پر معاذ آگ جلائے بیٹھا تھا۔اور چائے تیار تھی۔دیگر ملا کو غصہ آیا اگر چائے پہلے سے بنی ہوئی تھی تو کیا ضرورت تھی مجھے جگانے کی۔
آج تو میں نے چائے بنا لی ہے تمہارا پہلا دن ہے اس لیے لیکن کل سے صبح سویرے اٹھ کر چائے تم ہی بناؤں گی۔مجھے سویرے ہیں کھیتوں کی طرف نکلنا ہوتا ہے۔اگر کسانوں پر نظر نہ رکھوں تو سب گڑبڑ کر دیتے ہیں۔____ معاذ نے کہا
منال وہاں بیٹھ گئی۔اس نے پیالی اٹھی اور چائے کیتلی سے بھرنے لگی۔معاذ اب غور سے اس حسینہ کو دیکھ رہا تھا۔ایک پل کو معاذ کی نظریں اس پر ٹھہر گئیں تو نظر ہٹانا ہی بھول گیا۔ پھر اپنے جذبات پر قابو رکھ کر خود سے بولا۔۔۔۔
نہیں معاذ نہیں۔۔۔ اس کے حسن کے آگے کمزور نہیں پڑنا ہے۔۔۔ یاد ہے نا اس کی ماں نے تمہاری ماں کا حق مار کے اسکے باپ سے شادی کی تھی۔۔۔
جاری ہے
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box