" مورے میں جاتا ہے باہر ٹھیک ہے۔ " وہ جلدی سے سیڑھیوں سے نیچے آتے ہوئے بولی اسے باہر بھاگنے کی جلدی تھی کہ یکدم اس کی ماما نے اسے روکا۔

" اوئے کہاں جاتا ہے تم ہاں چلو آو ناشتہ کھا کہ جاو۔" زریں بیگم اس کو روکتے سختی سے بولی جس پر وہ منہ بنا کر رکی۔

Novel : Meri pathani ❣میری پٹھانی


" ماڑا مورے ام کو جلدی ہے نہ دعا ہمارا انتظار کر رہا ہے ام بعد میں کھا لے گا۔" وہ معصوم شکل بنا کر بولی کہ شاید اس کی امی کو رحم آجائے مگر اس کی امی بھی اس کی سب چالاکیاں سمجھتی تھی۔
" کوئی ڈرامہ مت کرو چلو شاباش۔" زریں بیگم اسے گھورتے ہوئے بولی اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی بھاری مردانہ آواز گونجی جسے سن وہ دونوں اس جانب متوجہ ہوئے۔
" کیا ہو رہا ہے بھئی کیوں ہمارا شہزادی کو ڈانٹ رہا تھا تم۔" دلاور خان اپنی بہن کو حصار میں لیتے زریں بیگم سے بولا۔
" تمہارا شہزادی ایسے ہی خالی پیٹ جا رہا ہے۔ " زریں بیگم بولی تو دلاور خان نے اس کی جانب دیکھا جو التجائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ بچا لو۔
" ارے مورے یہ وہاں جا کر کچھ کھا لے گا ہیں نا۔" دلاور خان نے آج ایک بار پھر اس کی جان بچانے کہا جس پر وہ خوش ہوتے دل ہی دل میں اس پر صدقے واری گئی۔
۔" ٹھیک ہے مگر کھا ضرور لینا پھر بیمار ہو جاتا ہے تم۔ امار تو کوئی سنتا ہی نہیں ہے اس گھر میں ۔" زریں بیگم اسے بول کر بڑبڑا کر چلی گئی پیچھے وہ دونوں ہنس دیے۔
" اچھا لالا ام چلتا ہے اب ٹھیک ہے دعا امارا انتظار کر رہا ہو گا۔" وہ اپنی چادر ٹھیک کرتے ہوئے بولی اور پھر چل دی پیچھے دلاور خان کی آنکھوں کے پردوں پہ چھم سے دعا کا خوبصورت نازک سراپا لہرایا۔ اس کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ چھا گئی۔
💞💞💞
دعا کب سے گاڑی کے پاس کھڑے اس کا انتظار کر رہی تھی کہ کچھ ہی دیر میں وہ آتے دکھائی دی۔
کالے کپڑوں میں ملبوس وہ کالی ہی بڑی چادر سر پہ لئے جس میں اس کا خوبصورت میک اپ سے پاک چہرہ چمک رہا تھا۔ وہ بغیر کسی سجاوٹ کے بھی بےحد پیاری لگ رہی تھی۔ دعا نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری۔
" یار حورم کہاں رہ گئی تھی میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ " دعا اس کے قریب آتے ہی خفگی سے بولی جس پر حورم کو بہت شرمندگی ہوئی۔
" ماڑا ام کو معاف کردے ام آرہا تھا لیکن مورے نے روک لیا۔" وہ جلدی جلدی اسے صفائی دیتے ہوئے بولی کہ کہیں اس کی پیاری سی دوست ناراض نہ ہو جائے۔ اس کے یوں کہنے پر دعا کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔
" کوئی بات نہیں میری جان چلو اب چلتے ہیں۔" دعا اس کے پھولے نرم گالوں کو چومتے ہوئے بولی اور پھر آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی اور حورم بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اس کے بیٹھتے ہی دعا نے زن سے گاڑی بھگا لی۔
💞💞💞
" حورم جہانگیر خان "
اپنے گھر والوں کی لاڈلی۔
جہانگیر خان کی شادی ان کے ماں باپ کی مرضی سے ہوئی۔ اس شادی اور زریں بیگم کو انہوں نے دل و جان سے قبول کیا۔ اور ہر وہ مان عزت اور محبت دی جس کی ہر عورت خواہش مند ہوتی ہے۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد دلاور خان کی آمد ہوئی جس پر سب ہی بہت خوش تھے۔ دلاور خان ایک خوش اخلاق انسان تھا وہ ویسے تو غصہ کم ہی کرتا مگر جب کرتا تو سارا گھر سر پہ اٹھا لیتا۔ اس کے غصے سے ہر کوئی خوفزدہ رہتا۔
جب دلاور خان پانچ سال کا ہوا تب ان کے گھر ایک خوبصورت سی پری کی آمد ہوئی۔ جس کا نام انہوں نے حورم رکھا۔ دلاور خان اس کی پیدائش پر بہت خوش تھا۔ حورم جب ایک سال کی ہوئی تو جہانگیر خان نے شہر شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔
شہر آنے کے بعد انہوں نے دلاور اور حورم کو تعلیم دلوائی۔
حورم ابھی کالج میں تھی۔ کالج میں اس کی ملاقات دعا سے ہوئی. دعا کو یہ پیاری سی پٹھانی بہت اچھی لگی اور سب سے بڑھ کر اس کا بولنے کا انداز بہت بھاتا اسے اس لئے دعا نے اس سے دوستی کی پیشکش کی جو کہ حورم نے فورا قبول کر لی۔
حورم کو ایک دن کالج سے پک کرنے کے لئے دلاور خان آیا وہاں حورم نے اس کی ملاقات دعا سے کروائی۔ اور وہ چھوٹی سی نازک لڑکی ناجانے کب اس کے دل میں بس گئی اس بات کا اسے علم تک نہ ہوا۔
آج دعا حورم کو پک کرنے آئی تھی کیونکہ اس نے کچھ شاپنگ کرنے جانا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ حورم اس کے ساتھ جائے۔ پہلے تو اس کی امی نہیں مانی مگر دعا نے ان کو بہت منت سماجت کر کے آخر منا ہی لیا۔
💞💞💞
" اوہ ماڑا یہ کیا تم نے پنجابی گانا لگا دیا ہے۔ تھوڑا پشتو والا لگاو۔" گاڑی میں لگا distance love گانا سنتے حورم نے منہ بگاڑ کر کہا جس پر دعا ہنس دی اور گانا بند کر دیا۔
" اوہ ماڑا ہم کو بھی پھر پشتو گانا نہیں اچھا لگتا پھر۔۔۔۔" دعا بھی اسی کے انداز میں بولتی حورم کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔
" ٹھیک ہے ماڑا نہ پشتو لگاو نہ پنجابی پھر ٹھیک لگے گا۔" حورم نے جیسے حساب برابر کرتے کہا اس کی بات پر دونوں ہی ہنس دئے ایک دوسرے کی جانب متوجہ وہ دونوں سامنے کھڑی گاڑی کو نہ دیکھ سکے کہ یکدم انکی گاڑی کا تصادم سامنے کھڑی گاڑی سے پوا۔
" ہائے اللہ میری نئی گاڑی توڑ دی۔ نکلو باہر جلدی کرو نکلو ۔" آریان جو کہ اپنے دوست سے کال پہ بات کر رہا تھا گاڑی کی زوردار آواز پر جب اس نے مڑ کر دیکھا تو اپنی نئی گاڑی کی یوں خراب حالت دیکھ صدمے میں چلا گیا۔
اس نے ان کی گاڑی کے بونٹ پہ ہاتھ مارتے غصے سے ان کو باہر نکلنے کا کہا۔
دعا اور حورم نے فورا گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
" تم دونوں کو سمجھ نہیں آئی۔ میں کہہ رہا ہوں باہر نکلو۔'" دعا اور حورم کو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ وہ پھر بولا تو دونوں اللہ کا نام لے کر باہر نکلی۔
" یہ دیکھو تم لوگوں نے میری نئی گاڑی کا کیا حال کیا ہے۔" آریان غصے سے انہیں گھورتا ہوا بولا۔
" سوری بھائی ہمیں معاف کر دیں ہم نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔" دعا فورا معذرت کرتے ہوئے بولی مگر اس کی معذرت بھی آریان کے غصے کو ٹھنڈا نہ کر پائی۔
" کیوں معاف کردوں ہاں یہ دیکھو اتنا نقصان کر دیا میرا ۔" آریان غم و غصے سے اپنی خراب ہوئی گاڑی کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔
" اوہ ماڑا تم تو بدتمیزی کئے جا رہا ہے۔ وہ تم سے معافی مانگ رہا ہے نہ تم کیوں اتنا نخرہ دکھاتا ہے۔" حورم جو کب سے خاموش کھڑی تھی آخر کار میدان میں اترتے غصے سے آریان کو گھورتے ہوئے بولی۔
آریان نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔ اور اسکا بولنے کا انداز
" ہا ہائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ ایک تو میری گاڑی خراب کر دی اوپر سے مجھے ہی سنا رہی ہیں آپ۔" آریان کمر پہ ہاتھ ٹکائے لڑاکا عورتوں کی طرح بولا۔
" اوہ ماڑا ہمارا دماغ مت گھماو سمجھا نہ اگر ہمارا دماغ گھوم گیا نہ تو ہم تم کو گھما کہ رکھ دے گا۔" حورم انگلی اس کی جانب کئے اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی جس پر آریان نے مسکراہٹ دبائی۔
" چلو بھئی پیسے دو مجھے۔ میرا اتنا نقصان کر دیا تم لوگوں نے۔" آریان ہتھیلی اس کی جانب بڑھائے بولا تو دعا نے جی بھائی کہہ کر پیسے نکالنے چاہے مگر حورم فورا اس کا ہاتھ تھام گئی۔
" کیوں ماڑا ہم کیوں دے پیسے ہمارا کوئی غلطی نہیں ہے اس کی غلطی اس نے گاڑی کیوں یہاں کھڑا کیا۔" حورم اپنی غلطی اس کے سر پر ڈالتی ہوئی بولی جس پر آریان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
" اوہ میڈم یہ اچھا ہے کہ اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈال دیں۔" آریان اسے دیکھ طنزیہ لہجے میں بولا۔
تو حورم نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورا۔ اسی کی نقل کرتے آریان نے بھی آنکھیں چھوٹی کرتے اسے گھورا۔
" بھائی ہمیں معاف کردیں ہم نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔" دعا جلدی ہی دونوں کے بیچ آتے بولا مبادا کہیں زبردست سی لڑائی نہ ہوجائے دونوں کے بیچ۔
" ٹھیک ہے ٹھیک ہے جاو معاف کیا تم لوگ بھی کیا یاد رکھو گے کہ کس سخی انسان سے پالا پڑا تھا۔" آریان فخر سے گردن اکڑا کر بولا جیسے ناجانے کتنا بڑا احسان کر دیا ہو اس پر۔
" شکریہ بھائی۔" دعا بولی اور حورم کو کھینچ کر لے گئی جو کہ ابھی تک آریان کو گھورنے میں مصروف تھی۔ آریان اسے دیکھ آنکھ مارنے گیا جس پر حورم کا منہ کھل گیا اس نے غصے سے اس کی جانب دیکھا اس سے پہلے کہ ایک بار لڑائی شروع ہوتی دعا نے اسے گاڑی میں بٹھاتے گاڑی زن سے بھگا لی۔ پیچھے آریان اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکرا دیا۔